
صنف نازک ہوں مگر لکیر کی فقیر نہیں
وہ کہانی جو مجھے وراثت میں ملی
تحریر: کہکشاں ابرار،
صنف نازک ہوں مگر لکیر کی فقیر نہیں
وہ کہانی جو مجھے وراثت میں ملی
تحریر: کہکشاں ابرار،
مجھے وہ طرفہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب میں نے اپنی ماں کو اپنے لئے ڈٹ کر کھڑے ہوتے دیکھا۔ کوئی بڑا اجتماع نہ تھا وہاں تالیاں تھیں نہ چراغاں، بس مردوں سے بھری ایک نشست تھی جس میں صنفی امتیازکی کارفرمائی تھی اور میری ماں نے نظر انداز ہونے کو قبول کرلینے کے بجائے اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔میں نو دس برس کی تھی،دروازے کی اوٹ سے جھانک رہی تھی الفاظ پوری طرح سمجھ نہ آ سکے مگر کیا عجب ہوا کہ اس لمحے کی تاثیرمیرے دل میں اتر گئی اور اتری بھی ایسے کہ میرے اندرسب کچھ بدل گیا۔جب شعور کی عمر کو پہنچی تومیں نے دیکھا کہ روز مرہ زندگی میں مزاحمت کیسی ہوتی ہے اور ایک عورت کی خاموش قوت ایک سرکش پہاڑی نالے کی مانندکیسے اپنا راستہ بناتی ہے۔صنف نازک کی اس خوبی کا پتہ ہمیں پرانی کہاوتوں میں بھی ملتا ہے جیسے کہا گیاہے کہ۔۔۔ بلی دا چھٹ،تے عورت دا ہٹھ(یعنی بلی کی تیز جھپٹ اور عورت کی ضد اور حوصلہ اپنی مثال نہیں رکھتے)۔۔۔۔ایک دوسری کہاوت میں بتایا گیا۔۔۔ بال ہٹھ، راج ہٹھ اتے تریمت ہٹھ (مطلب یہ کہ بچہ اپنی ضد منوا کے رہتا ہے،اسی طرح بادشاہ بھی اپنی ضد پوری کر کے ہی بیٹھتا ہے اور ان دونوں کی طرح عورت بھی اپنی ضد پر آجائے تو وہ اسے پورا کر کے ہی دم لیتی ہے)گویا عورت کے عزم و حوصلے کو صدیوں سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ میری پیدائش اورپرورش ایک ایسی ہی کہانی میں ہوئی جسے قربانی،جدوجہد،اور خاموش جرات نے تراشا،میری ماں جیسی خواتین نے خاموشی کے بجائے وقار اور سیلف رسپیکٹ کو اپنایا۔ایک بھوری رنگت والی مسلمان لڑکی کے طور پر ایسے ملک میں پلنا جہاں صنف کی بنیاد پر تقدیر رقم کی جاتی ہو۔سرحدیں بننے سے پہلے بھی ہمارے بزرگوں نے جبر جھیلا۔ میرے خاندان کی عورتیں مدتوں ایک ایسے جہان میں زندہ رہیں جہاں ان کی شرکت سے زیادہ ان کے صبر کی قدر کی جاتی تھی۔مگر میں یہاں وہی پرانی کہانی دوہرانے نہیں آئی۔مجھے اسے از سرنو اپنے ڈھب اور اپنی ماں کے سکھائے ہوئے اندازمیں لکھنا ہے۔میں صرف اپنے معاشرے کی پیداوار نہیں،میں اس کا آئینہ بھی ہوں اور اس کی آواز بھی۔میں اس کے دکھ،اس کی قوت اور اس کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کو ساتھ لے کر چلی ہوں۔ایمان،جنس اور جغرافیہ کے سنگم پرجس نے مجھے سکھایا کہ عورتوں کو کتنی بار بقا اور خودی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔میں نے دیکھا کہ ان کی محنت بے اجرت رہتی ہے،ان کی امنگوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی،ان کے درد کو چنداں اہمیت نہیں ملتی۔ ایسا سب کچھ ہونے کے باوجودان کے قدم جمے رہتے ہیں، وہ ٹھہرتی ہیں،بہت کچھ بناتی ہیں، سنبھالتی ہیں، رہنمائی کرتی ہیں اوراکثر چپ چاپ مگر ہمیشہ دلیراوربرد بار۔ یہ تجربات اور حقائق میرے لئے محض اعداد و شمار نہیں بلکہ پہچانی ہوئی صورتیں ہیں۔وہ لڑکی جو صرف اس لئے سکول چھوڑ گئی کہ سواری میسر نہ تھی،وہ عورت جو دودو نوکریاں کرتی ہے اور گھر پہنچ کرگھر گرہستی کی ذمہ داری بھی بنا کسی معاوضے کے نبھاتی ہے۔وہ بیوہ خالہ جان جوپڑھنا لکھنا نہ سیکھ سکیں مگر وہ اپنی بیٹیوں کو ہنر مند بنا گئیں، ایسے ہی واقعات میرے تبدیلی کے تصور کو ایندھن مہیا کرتے ہیں۔میں نے” ویز آف ویمن” کی بنیاد رکھی،ایک غیر منافع بخش ادارہ جو عورتوں کی زندگی کے ہر مرحلے پر ان کا ہاتھ تھامتا ہے۔ ہم صرف جذباتی اور معاشی بوجھ ہی نہیں اٹھاتے بلکہ ان رکاوٹوں پر بھی توجہ دیتے ہیں جو نظر سے اوجھل رہتی ہیں، جیسے ماہواری (پیریڈز)اور ان سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل جن کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غربت کی وجہ سے ان گنت بچیاں حیض کے دنوں میں پیڈز استعمال نہیں کرسکتیں کیونکہ وہ انہیں خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتیں،اس بنا پر وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں مگر اس طرف کبھی کم ہی توجہ دی گئی ہے۔اب تک ہم پانچ ہزارآئیٹم سے زیادہ حفظان صحت کا سامان عطیہ کر چکے ہیں اور ایک یتیم خانے کی ساٹھ بچیوں کو نئے جوتے اور اسٹیشنری سمیت بنیادی تعلیمی ضروریات کا سامان فراہم کر چکے ہیں۔یہ مشن خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے اورذاتی ہے۔ یہ اسی خاموشی میں سانس لیتا ہے جسے کبھی میری ماں نے توڑا تھا یہ ہر اس عورت کی زندگی میں گونجتا اور انقلاب برپا کرتا ہے جسے بیٹھنے کو کہا گیاہو مگر وہ اٹھ کھڑی ہو، یہی جذبہ مجھے آگے بڑھنے پر کاربند رکھتا ہے چاہے دنیا سننے کو تیار ہو یا نہ ہو۔میں ایک ایسے مستقبل کا تصور کرتی ہوں جہاں لڑکیوں کو خود کو سمیٹنا سکھایا جائے۔ جہاں عورتیں بورڈ روم،کلاس روم اور کورٹ روم میں اعتماد کے ساتھ داخل ہوں، جہاں ہر عورت اپنے پس منظر سے قطع نظرصرف جینے کے اوزار ہی نہیں بلکہ اپنی کہانی خود تراشنے کی قوت پائے اور کرشمہ کر کے دکھائے۔یہی وہ مستقبل ہے جس کی طرف میرا سفر جاری ہے ایک آواز سے آغاز ایک قدم کے ساتھ پیش قدمی اور ایک عورت کے وسیلے سے دنیا تک رسائی میرا مشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





